محمد عظیم برخیا



سیّد محمد عظیم برخیا (پیدائش: 1898ء - وفات:27 صفر ،1399ھ بمطابق 27 جنوری، 1979ء) مشہور روحانی بزرگ، 

صوفی شاعر اور سلسلہ طریقت سلسلہ عظیمیہ کے بانی ہیں۔[1] اصل نام سید محمد عظیم ، خطاب حسن اخریٰ ، تخلص بر خیا اور 

مریدین قلند ر بابا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ رشتے میں حضرت بابا تاج الدین ناگپوری ؒ کے نواسے ہیں[2] ۔ انہوں 


نے تصوف، روحانی علوم پر کتب تحریر و تالیف کیں، اس کے علاوہ رباعیات کی شکل میں ان کے صوفیانہ کلام بھی موجود 


ہے۔

پیدائش


سیّد محمد عظیم برخیا 1898ء) کو قصبہ خورجہ، بلندشہر ضلع، اتر پردیش (موجودہبھارت) میں پیدا ہوئے۔

خاندانی پس منظر


محمد عظیم برخیا کے والد کا نام حسین مہدی بدیع الدین شیردل تھا، اوروالدہ کا نام محترمہ سعیدہ بی بی تھا ۔ سیّد محمد عظیم 


برخیا نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں اور آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت سیدنا امام حسن عسکری ؒسے ملتا ہے۔ حضرت امام 


حسن عسکریؒ آل محمدﷺ میں گیارہویں امام ہیں۔ ان کی اولاد میں سے ایک بزرگ حضرت فضیل مہدی عبداللہ عربؒ 


مدینہ منورہ سے مدراس تشریف لائے۔ ان کے دو صاحبزادگان تھے - حضرت حسین مہدی رکن الدین اور حضرت حسن 


مہدی جلال الدین ۔ حضرت حسین مہدی رکن الدین کی اولاد میں محمد عظیم برخیا کے والد کا نام حسین مہدی بدیع الدین 


شیردل تھے۔ اور حضرت حسن مہدی جلال الدین کی نسل میں ناگپور کے مشہور بزرگ حضرت بابا تاج الدین 

ناگپوری گزرے ۔ [6] حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ ،سید محمّد عظیم کی والدہ سعیدہ بی بی کے دادا حسن مہدی صدر الدین 



کے بھتیجے تھے - اس لحاظ سے بابا تاج الدین ناگپوریؒ حضرت محمّد عظیمؒ کے رشتے کے نانا تھے - بابا تاج الدین نے شادی 


نہیں کی تھی لیکن آپ نے محمد عظیم برخیا کی والدہ سعیدہ بی بی کو اپنی بیٹی بنا کر پرورش کی - محمد عظیم برخیا اسی نسبت سے 


بابا تاج الدینؒ کو نانا کہا کرتے تھے -


تعلیم



محمد عظیم برخیا نے قرآن پاک اور ابتدائی تعلیم قصبہ خورجہ کے مکتب میں حاصل کی۔ والد صاحب کا تبادلہ بلند شہرہوگیا تو ہائی اسکول بلند شہرسے تعلیم حاصل کی اور 

1912ء میں ميٹرک کیا، اور پھر انٹر ميڈيٹ کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کی طبیعت میں درویشی کی 

طرف میلان پیدا ہو گیا ور وہاں مولانا کابلی ؒ کے پاس قبرستان کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ اسی اثناء میں 1914ء آپ اپنے نانا بابا تاج الدین 

ناگپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے بابا تاج الدین کے پاس 1922ء تک 9 نو سال رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ اس زمانے میں ہونے والے 

واقعات کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب "تذکرہ تاج الدین بابا"میں تحریر کیا ہے۔





عائلی اور پیشہ ورانہ زندگی


1924ء میں آپ کی والدہ محترمہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ آپ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت اور کفالت پر کمر بستہ ہو 

گئے اور جب بچیوں کی تربیت کے سلسلے میں وقت پیش آئی تو بابا تاج الدین گپوری کے ارشاد کے مطابق ان کے ایک عقیدت مند کی صاحبزادی سے دہلی میں آپ 

کی شادی ہو گئی، 1925ء میں بابا تاج الدین کے انتقال کے بعد آپ دہلی میں قیام پزیر ہو گئے ۔ آپ کو اللہ نے دو صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں سے نوازا۔ 

1936ء حکومت برطانيہ کی ہندوستانی فوج ميں ايک سال ملازمت کی فوجی ملازمت کے سلسلہ ميں برما روانگی اور برما ميں محاذ پر زخمی ہونے کے بعدہسپتال ميں زير 

علاج رہے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد آپ اپنے والد بہنوں ، بھائیوں اور اہل و عیال کے ساتھ ممبئی سے ہوتے ہوئے پانی کے جہازسے کراچی پاکستان آگئے ۔ 

کراچی میں کمشنر بحالیات خان بہادر عبدالطیف نے آپ سے درخواست کی کہ آپ درخواست لکھ دیں تاکہ آپ ؒ کو کوئی اچھا سا مکان الاٹ کر دیا جائے لیکن آپ 

نے اس درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی اور لی مارکیٹ کے قریب محلہ عثمان آباد (گارڈن )میں ایک خستہ حال مکان کرائے پر لیا اور رہائش اختیار کی۔اس دوران 

رزق حلال کمانے کیلئے لارنس روڈ کراچی کے فٹ پاتھ پر الیکٹریشن کا کام کیا ، اس کے بعد مختلف رسائل و جرائد میں صحافتی اور ادبی امور سرانجام دیئے ۔ روزنامہ 

ڈان (اردو) ميں عرصہ دو سال تک ملازمت کی۔ یہیں آپ کی ملاقات خواجہ شمس الدين عظيمی سے ہوئی جو بعد میں آپ کے شاگرد بنے۔ 1954ء 


میں ادبی رسالہ نقاد ميں ملازمت کی۔ معاشی حالات بہتر ہوئے تو ناظم آباد میں رہائش اختیار کی ۔

سلسلہ طریقت


1956ء میں سید محمد عظیم نے سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ حضرت ابوالفيض قلندر علی سہروردی (متوفی 10 ستمبر 1958ء؛ مزار لاہور کے قریب ہنجر وال میں 

مرجع خلائق ہے ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی ۔ بیعت کے بعد سید محمد عظیم برخیا کی روحانی تعلیمات کا سلسلہ شروع ہوا، آپ کے دن و رات مسلسل 

عبادت میں گزرنے لگے، اس دوران کئی لوگ آپ کے مرید ہوئے اور آپ سے فیض حاصل کیا۔ زبان خلق پر حضور بھائی صاحب اور قلندر بابا کے نام سے 

مقبوليت حاصل ہوئی ۔ 1957ء میں سید محمد عظیم برخیا نے اپنے تصنیف لوح و قلم کا مسودہ لکھوانا شروع کيا، 1960ء میں آپ نے اپنے سلسلہ طریقت سلسلہ 

عظیمیہ کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کی دہائی میں عظيميہ ٹرسٹ فاؤنڈيشن کا قيام عمل میں آیا۔



تصانیف و تالیفات





دہلی میں سلسلہ معاش قائم رکھنے کے لئے آپ نے مختلف رسائل و جرائد میں صحافت اور شعراء کے دیوانوں کی اصلاح اور تربیت کا کام اپنے لئے منتخب کیا۔ کراچی 


میں قیام کے کچھ عرصے بعد آپ "اردو ڈان "میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔ اس کے بعد عرصے تک ماہنامہ "نقاد "میں کام کرتے رہے ۔ کچھ رسالوں 


کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے اور کئی مشہور کہانیوں کے سلسلے بھی قلم بند کئے ۔ آپ ایک نہایت اعلیٰ اور بلند پایہ شاعر تھے ۔ شعر و سخن کا ذوق آپ نے 


بچپن ہی سے پایا تھا ۔ آپ نے بہت سی رباعیات کہیں جن میں کائنات کی حقیقت اور انسانی زندگی کا مقصد و مقام اجاگر کیا گیا ہے۔ 1978ء میں سید محمد عظیم برخیا 


قلندر بابا اولیاء ؒ کی زیر سرپرستی آپ کے شاگرد خواجہ شمس الدین عظیمی نے رسالے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کا اجراء کیا جس کے ابتدائی شمارے آپ کی زیر نگرانی 


شایع ہوئے۔ سیند محمد عظیم برخیا نے نے مضامین اور کہانیوں کے علاوہ درج ذیل کتب تحریر فرمائیں :


  • تذکرہ تاج الدین بابا ، ٭ مکتبہ تاج الدین باباناظم آباد کراچی

  • رباعیات قلندر بابا، ٭ مکتبہ تاج الدین بابا ناظم آباد کراچی

  • لوح وقلم ، مکتبہ تاج الدین بابا ناظم آباد کراچی

  • قدرت کی اسپیس،

    نمونۂ کلام

  • ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اِک لفظ تھا اِک لفظ سے افسانہ ہوااک شہر تھا اک شہر سے ویرانہ ہوا
    گردُوں نے ہزار عکس ڈالے ہیں عظیممیں خاک ہوا خاک سے پیمانہ ہوا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دُنیائے طلسمات ہے ساری دُنیاکیا کہئے کہ ہے کیا یہ ہماری دُنیا
    مٹی کا کھلونا ہے ہماری تخلیقمٹی کا کھلونا ہے ساری دُنیا
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کُل عُمر گزر گئی اس پر ناشادافلاک نے ہر سانس کیا ہے برباد
    شاید کی وہاں خوشی میسر ہوعظیمیہ زیرِ زمیں بھی اک دُنیا آباد
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اچھّی ہے بُری ہے دَہر فریاد نہ کرجو کچھ کہ گزر گیا اُسے یاد نہ کر
    دو چار نفس عُمر ملی ہے تجھ کودو چار نفس عُمر کو بَرباد نہ کر
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حق یہ ہے کہ بےخودی خودی سے بہترحق یہ ہے کہ موت زندگی سے بہتر
    البتہ عدَم کے راز ہیں سربستہلیکن یہ کمی ہے ہر کمی سے بہتر
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دُنیا وہ نگر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیںانسان وہ گھر ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں
    وہ وقت کہ سب جس کو اہم کہتے ہیںوہ وقت صفر ہے کہ جہاں کچھ بھی ہیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    ساقی کا کرم ہے میں کہاں کا مئے نوشمجھ ایسے ہزارہا کھڑے ہیں خاموش
    مئے خوار عظیم برخیا حاضر ہےافلاک سے آرہی ہے آوازِ سروش

    وفات


  • 1977ء اوائل سید محمد عظیم برخیا قلندر بابا اولیا کی صحت خراب ہونا شروع ہوگئی، بيماری نے طول پکڑنا شروع کرديا جس کے باعث آپ بہت کمزور ہوگئے حتیٰ 

  • کہ زيادہ وقت ليٹے ہی رہتے تھے۔ سید محمد عظیم برخیا ، قلندر بابا بروز ہفتہ 27 صفر،1399ھ بمطابق 27 جنوری، 1979ء کو 81 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی 

  • سے کوچ کرگئے۔[2] [8] ۔ خواجہ شمس الدین عظمی نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو "عظیمیہ ٹرسٹ 

  • فاونڈیشن " کے شمالی حصہ (نارتھ ناظم آباد کراچی ) میں آسودۂ خاک کیا گیا۔ [9] آپ کا عرس ہر سال جنوری میں متحدہ امارات ، تھائی لینڈ ، فرانس، ڈنمارک ، 

  • برطانیہ ، امریکہ ، روس اور پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں منعقد کیا جاتا ہے۔ عرس کی مرکزی تقریب 27 جنوری کو مرکزی مراقبہ ہال سرجانی ٹاوٗن 

  • کراچی میں خواجہ شمس الدین عظیمی ( ایڈیٹر ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی ) کی 
  • زیر نگرانی منعقد ہوتی ہے

  •    
                                    


Please Share it! :)
Share To:

Faizan-e-Shams

Post A Comment:

0 comments so far,add yours