10/02/17

من مندر

سب سے بہترین دوست انسان کا اپنا من ہے ۔ جس نے من کو سمجھ لیا اور من کے اندر اپنی مورتی کو دیکھ لیا وہ دوست سے واقف ہو گیا یعنی وہ خود اپنا دوست بن گیا ۔

Khwaja Shumsuddin Azeemi

قلندر شعور ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہم کائناتی تخلیقی فارمولوں کے تحت اپنے اندر ہر قسم کی غیر مرئی
صلاحیتوں کو اپنے ارداے اور اختیار سے متحرک کر سکتے ہیں ۔ایک آدمی جب اپنے اندر دور کرنے والی
بجلی یا نسمہ سے واقف ہو جاتا ہے تو وہ بجلی کے بہاؤ کو روک بھی سکتا ہے اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ والٹیج
 کا ذخیرہ بھی کر سکتا ہے اور اس ذخیرے سے ماورائی دنیا میں بغیر کسی وسیلے کے پرواز بھی کر سکتا ہے۔ الیکڑیسٹی
کے ذخیرے کے بعد اس کے اندر ایسی سکت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ارادے اور اختیار سے آسمان اور زمین کے
 کناروں سے باہر نکل جاتا ہے ۔اس کی آنکھوں کے سامنے زمین کی کہکہشاں میں بے شمار زمینیں آجاتی ہیں۔ جس طرح
 وہ اپنی زمین پر آباد اللہ کی مخلوق کو دیکھتا ہے اسی طرح کھربوں دنیاؤں کا بھی مشاہدہ کرتا ہے۔ جس طرح ایک فلم سینکڑوں
 ہزاروں اسکرین پر دیکھی جا سکتی ہے اسی طرح کائنات کی تمثیل لوح محفوظ سے ڈسپلے ہو رہی ہے۔ کائنات میں موجود ہر زمین
ایک اسکرین ہے۔ لاشعور بیدار ہو جاتا ہے تو یہ ساری کائنات ایک فلم اور کائنات میں کھربوں زمینیں اسکرین نظر آتی ہیں۔ جو
کچھ اس زمین پر ہو رہا ہے بالکل اسی طرح کائنات میں موجود دوسری تمام زمینوں پر بھی یہ نظام جاری و ساری ہے۔

طاقت



قدرت کا چلن یہ ہے کہ کوئی غیر معمولی طاقت اسی کو ملتی ہے جو اس کا موزوں کو استعمال 

حاصل کرنے کے بعد بے جا فخر اور گھمنڈ کے جانتا ہے اور جو لوگ اس قسم کی طاقت

  نشے میں غیر اخلاقی اور غیرانسانی حرکات شروع کر دیتے ہیں ان سے یہ طاقت چھین

لی جاتی ہے۔ اس لئے یاد رکھئیے کہ سب سے پہلے آپ کے دل میں اپنی شخصی تعمیراور پھر 

تعمیر کائنات کا عزم ہونا چا ہیئے ۔

طاقت



قدرت کا چلن یہ ہے کہ کوئی غیر معمولی طاقت اسی کو ملتی ہے جو اس کا موزوں کو استعمال 

حاصل کرنے کے بعد بے جا فخر اور گھمنڈ کے جانتا ہے اور جو لوگ اس قسم کی طاقت

  نشے میں غیر اخلاقی اور غیرانسانی حرکات شروع کر دیتے ہیں ان سے یہ طاقت چھین

لی جاتی ہے۔ اس لئے یاد رکھئیے کہ سب سے پہلے آپ کے دل میں اپنی شخصی تعمیراور پھر 

تعمیر کائنات کا عزم ہونا چا ہیئے ۔

ا متحان 
تمام مذاہب کی یہ تعلیم عام ہے کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے ۔ا متحان میں کامیابی فرد اورقوم کے لئے سکون و راحت کا ذریعہ ہے ۔
 جو فر د یا قوم امتحان میں فیل ہو جاتا ہے، نارِ جہنم اس کا ٹھکا نا ہے ۔

توقع
کسی سے توقع نہ رکھی جائے۔ اس لئے کہ جو بندہ کسی سے توقع نہیں رکھتا وہ 
ناامید بھی نہیں ہوتا۔ امیدیں توازن کے ساتھ کم از کم رکھنی چاہئیں اورایسی ہونی چاہئیں
 جو آسانی کے ساتھ پوری ہوتی رہیں ۔