سلسلۂ عظیمیہ کے سربراہ،روحانی اسکالرخواجہ شمس الدین عظیمی، ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی اور ماہنامہ قلندر شعورکے چیف ایڈیٹر ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات اور میگزین میں روحانی ڈاک، خواب کی تعبیر ، قارئین کے مسائل اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے کالم لکھے ۔سیرت طیبہ حضرت محمدمصطفی ﷺ، روحانیت، پیراسائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر70کتابیں تصنیف کیں اور60کتابچے تحریر کئے ہیں۔ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی (ملتان)میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہیں۔ روحانی علوم کے فروغ اور عوام الناس کے بہبود کے لیے دنیا بھر میں روحانی مراکز اور پاکستان میں اسکول اور کالج ، لائبریریاں  اور ہسپتال قائم ہیں۔

تعارف

خواجہ شمس الدین عظیمی، پاکستان کے ممتاز روحانی اسکالر اور سلسلۂ عظیمیہ کے خانوادہ ہیں۔ شمس الدین عظیمی 17اکتوبر 1927ء بروز پیر بمقام قصبہ انبیٹھہپیرزادگان ضلع سہارنپور (یوپی) بھارت میں پیدا ہوئے۔ شمس الدین عظیمی روحانی ڈائجسٹ کراچی اور روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل (برطانیہ) کے چیف ایڈیٹر ہیں اورپاکستان کے مختلف اخبارات اور میگزین میں روحانی ڈاک، خواب کی تعبیر، قارئین کے مسائل اور پیراسائیکالوجی کے عنوان سے لاتعداد کالم لکھے۔ سیرت طیبہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم، روحانیت، پیراسائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر61 کتابیں تصنیف کیں اور 60کتابچے تحریر کئے ہیں۔ اب تکانگریزی زبان میں 14، روسی زبان میں5، عربی زبان میں2، فارسی زبانمیں1،تھائی زبان میں3، پنجابی زبان میں 1 اور سندھی زبان میں4 کتب کا ترجمہ ہوچکا ہے۔
شمس الدین عظیمی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ شمس الدین عظیمی کی تصنیف احسان و تصوف اس یونیورسٹی میں ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ ’’سالفورڈیونیورسٹی(U.K)‘‘ کے ڈیپارٹمنٹ آف Rehabilitation میں تین کتابیں شامل نصاب رہی ہیں۔ پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک کے لئے شمس الدین عظیمی کی تحریر کردہ ’’اسلامیات‘‘ کی کتب پاکستان کے مختلف اسکولوںمیں پڑھائی جارہی ہیں۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے پاکستان اور بیرون پاکستان کی یونیورسٹیز ، تعلیمی اور دیگر اداروں میں طالب علموں اور پروفیسرحضرات کولیکچرز دیئے ۔ پیراسائیکالوجی پر سیمینارز ، ورکشاپس اور بین الاقوامی روحانی کانفرنسوں کاانعقاد کیا۔
سلاسل طریقت کے تحت صوفیائے کرام کے پیغامات اور ان کی تعلیمات کے فروغ کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے قلندر شعور فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام خانقاہی نظام کی طرز پر مراقبہ ہال کے نام سے سینٹرز قائم کئے جن کی تعداد پاکستان میں 61 اور بیرون پاکستان23 مراقبہ ہال قائم ہیں جن میں امریکہ،کینیڈا برطانیہ ، ہالینڈ، ڈنمارک ، روس، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ روحانی علوم کے فروغ اور عوام الناس میں عادت مطالعہ کے فروغ کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے پاکستان کے مختلف شہروں میں عظیمیہ روحانی لائبریریز قائم کیں۔ پاکستان کے علاوہ چنددیگر ممالک میں بھی عظیمیہ روحانی لائبریریز کا قیام عمل میں آیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے بحیثیت روحانی معالج ہزاروں افرادسے بالمشافہہ ملاقات کی اور بذریعہ خطوط اور فون سروس لاکھوں افراد کے مسائل کا حل بلامعاوضہ پیش کیا ہے۔ شمس الدین عظیمی کی زیر سرپرستی قائم’’خواجہ شمس الدین عظیمی ایجوکیشنل سوسائٹی‘‘ نے سرجانی ٹاؤن کراچی میں بچوں کو جدید تعلیمی سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے عظیمی پبلک ہائر سیکنڈری اسکول قائم کیا۔ ۔

حالاتِ زندگی

شمس الدین عظیمی کی پیدائش بروز پیر مورخہ 17 اکتوبر 1927ء مطابق 20 ربیع الثانی 1346ھ بمقام قصبہ انبیٹھہ پیرزادگان ضلع سہارنپور یوپی میں ہوئی۔ والدین نے نام شمس الدین رکھا۔ میزبان رسول ﷺحضرت خالد ابو ایوب انصاری سے نسبی تعلق کی بناء پر شمس الدین کے نام کے ساتھ انصاری بھی لکھا گیا۔ شمس الدین انصاری کے آباؤاجداد صوبہ ہرات افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ اس خاندان کا شجرہ افغانستان کے علاقہ ہرات کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ عبدﷲ انصاریؒ (جو پیر ہرات کے نام سے بھی مشہور ہیں) سے ہوتا ہوا حضرت ابو ایوب انصاری ث تک پہنچتا ہے۔ شمس الدین عظیمی کے والد ماجد کا نام حاجی انیس احمد انصاری اور والدہ ماجدہ کا نام امت الرحمن ہے۔ اجی انیس احمدانصاری معروف عالم دین حضرت خلیل احمد سہارنپوری ؒ کے بھتیجے اور مرید تھے ۔ حاجی انیس احمدانصاری کے ہاں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ولادت ہوئی۔ شمس الدین انصاری اپنے بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ شمس الدین عظیمی کے بڑے بھائی (مولانا) محمد ادریس انصاری کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور ان کی کتاب ‘‘میری نماز‘‘ کافی مشہورتصنیف ہے، معروف محترم عالم دین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حاجی انیس احمد انصاری کے پھوپھا تھے اس لحاظ سے مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ رشتہ میں شمس الدین انصاری کے دادا ہوئے۔
شمس الدین انصاری کا بچپن سہارنپور میں ہی گزرا۔ تقسیم ہند سے قبل کے دور میں اسکول کالج کی تعلیم عام نہیں ہوتی تھی۔ ابتدائی تعلیم عموماً گھروں پردی جاتی تھی یا پھر دینی مدارس مسلمانوں میں حصول تعلیم کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ شمس الدین انصاری کی ابتدائی تعلیم جس میں اردو اور فارسی کی تعلیم شامل تھی گھر پر ہی ہوئی۔ شمس الدین عظیمی کے بڑے بھائی (مولانا) محمد ادریس انصاری اردو اور فارسی میں شمس الدین عظیمی کے استاد بنے۔ قرآن پاک ناظرہ پڑھنے اور حفظ کرنے کے لئے شمس الدین عظیمی کو مدرسہ بھیجا گیا۔ شمس الدین عظیمی نے 12سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ اپنی نو جوانی کے ایام میں شمس الدین عظیمی سہانپورسے دہلی آگئے۔یہاں حکیم امتیاز الدین کی طبابت کا بہت چرچا تھا۔ دہلی میں شمس الدین عظیمی نے حکیم امتیاز الدین کی شاگردی اختیار کی اور ان سے دوا سازی اور نسخہ نویسی سیکھی۔ شمس الدین انصاری کے بڑے بھائی (مولانا) محمد ادریس انصاری نے دہلی سے ایک رسالہ ’’آفتاب نبوت ‘‘ جاری کیا اور اپنے چھوٹے بھائی شمس الدین انصاری کو اپنی معاونت کے لئے کہا۔ چنانچہ شمس الدین انصاری رسالہ آفتاب نبوت سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران شمس الدین انصاری نے رسالہ کے منتظم اور معاون مدیر کے فرائض سرانجام دیئے۔ 1946ء کے آخر میں روزنامہ خلافت بمبئی اور مولانا اختر علی خان کے اخبار زمیندار میں قیام پاکستان کے حق میں مضامین لکھے۔
شمس الدین انصاری دورِ شباب (بیس سال کی عمر) میں تھے کہ تقسیم ہند عمل میں آئی۔ ان دنوں شمس الدین انصاری پٹیالہ میں مقیم تھے۔ شمس الدین انصاری پٹیالہ سے لاہور آگئے اور وہاں سے ریاست بھاولپور کے شہرصادق آباد آگئے۔ صادق آباد میں حصول معاش کے لئے ابتدائی طورپرمحنت مزدوری کی۔ کچھ عرصہ بعد کپڑے کی ایک دکان قائم کرلی۔ اس دوران شمس الدین انصاری کوتحصیل کی سطح پر شکر کی ڈیلر شپ مل گئی چنانچہ کپڑے کا کاروبار ترک کرکے شمس الدین انصاری نے صادق آباد میں شکر کی ڈیلر شپ لے لی۔لیکن صادق آباد میں شمس الدین انصاری کا دل نہ لگا اور بہتر مستقبل کے لئے کراچی آگئے۔ کراچی آکر حکیم محمد سعید کے قائم کردہ ہمدرد واخانہ کے شعبہ تشخیص و تجویز میں ملازمت اختیارکی۔ کچھ عرصہ بعد کراچی میں اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان سے قبل دہلی میں شمس الدین انصاری کے بڑے بھائی مولانا ادریس انصاری رسالہ’’ آفتاب نبوت ‘‘ شائع کرتے تھے۔ شمس الدین انصاری کو اس کام میں بہت دلچسپی تھی۔ 1950-1951ء میں شمس الدین انصاری نے رسالہ آفتاب نبوت کراچی سے جاری کیا۔ وسائل کی کمی تھی۔ چنانچہ اس رسالہ کے تقریباً تمام کام جن میں انتظامی معاملات ،مضمون نگاری ،ادارتی ذمہ داریاں، طباعت ،سر کولیشن وغیرہ شامل ہیں شمس الدین انصاری خود ہی سر انجام دیا کرتے تھے۔ آفتاب نبوت میں شمس الدین انصاری ایک کالم ’’روحانی ڈاک ‘‘کے نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ ماہنامہ آفتاب نبوت تقریباً دوڈھائی سال جاری رہا۔
کراچی میں ایک دن شمس الدین انصاری کسی دوست سے ملاقات کے لئے روزنامہ ڈان کے دفتر گئے تو وہاں اتفاقی طورپرمحمد عظیم برخیا(معروف بنام قلندربابا اولیاء ؒ) سے ملاقات ہوگئی۔ محمدعظیم کے حسن ِ سلوک سے شمس الدین انصاری بہت متاثر ہوئے۔ پھر ان دونوں حضرات کے درمیان ربط ضبط بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران شمس الدین انصاری کو محمد عظیم کے روحانی مقام ومرتبہ کا اندازا ہوا۔ کچھ عرصے بعد شمس الدین انصاری باقاعدہ محمد عظیم برخیا کی روحانی شاگردی میں آگئے۔
محمد عظیم برخیا کے درِ معرفت سے وابستہ ہونے کے بعد شمس الدین انصاری کی روحانی و صوفیانہ تعلیم وتربیت کا آغاز ہوا۔ شمس الدین انصاری نے اپنے استادکی خدمت میں 16سال تک رہ کر روحانی علوم حاصل کئے۔ صوفیانہ تربیت کے دوران گزرنے والی کیفیات اور مشاہدات کے بارے میں تصوف کی کتابوں میں تفصیلات مرقوم ہیں۔ قلندربابا اولیاء ؒنے روحانیت سے شغف رکھنے والے اپنے تمام مریدین کی تعلیم و تربیت فرمائی تاہم اپنے مرید شمس الدین انصاری کی روحانی تربیت پر بہت زیادہ توجہ دی۔ اس دوران قلندربابا اولیاء نے انہیں خواجہ کا لقب بھی عطا فرمایا۔ چنانچہ لوگوں نے انہیں خواجہ صاحب کہنا شروع کردیا۔ خواجہ شمس الدین کو اپنی روحانی نسبت پربہت زیادہ فخر ہے۔اس فخر کا اظہار انہوں نے اپنے نام کے ساتھ عظیمی لکھ کر بھی کیا ہے۔ اس طرح قلندربابا اولیاء ؒ کے اس شاگردکو لوگ خواجہ شمس الدین عظیمی کے نام سے جاننے اورپکارنے لگے۔
1969ء میں روزنامہ حریت کراچی میں روحانی علوم اور تصوف کے حوالہ سے خدمت خلق کے لئے ایک ہفتہ وار کالم بعنوان ’’ روحانی علاج‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔اس کالم میں بھی شمس الدین انصاری نے اپنا نام خواجہ شمس الدین عظیمی ہی لکھا۔ سلسلۂ عظیمیہ کے بانی و مرشد محمد عظیم برخیا (جو قلندربابا اولیاء کے نام سے مشہور ہوئے) 27جنوری 1979ء کو واصل بحق ہوئے۔ محمد عظیم ؒ کے انتقال کے بعد سلسلہ عظیمیہ کی سربراہی کا مرتبہ اُن ؒ کے خصوصی تربیت یافتہ روحانی فرزند خواجہ شمس الدین عظیمی کوملا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی نے بحیثیت سربراہ سلسلہ عظیمیہ، سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کو عوام الناس میں زیادہ سے زیادہ متعارف و روشناس کرانے کے لئے شمس الدین عظیمی نے اپنے مرشد کی زیر سرپرستی ان کی زندگی میں اور بعد از وصال دونوں ادوار میں نہایت سرگرم کردار ادا کیا۔ اس دوران شمس الدین عظیمی نے اپنے قلم کو خوب استعمال کیا۔ اخبارات ورسائل میں کالم ومضامین تحریر کئے۔ ایک ماہنامہ رسالہ روحانی ڈائجسٹ کا اجراء کیا۔ پمفلٹس لکھے ،کتابیں تحریر کیں۔ روز افزوں پھیلتے ہوئے سلسلہ عظیمیہ کے انتظامی معاملات کو بہتر طورپر چلانے کے لئے اراکین سلسلہ کی روحانی تربیت وتعلیم اور باہمی رابطہ کے لئے خانقاہی نظام کی طرز پر مراقبہ ہال کے نام سے ایک تنظیمی وتربیتی ڈھانچہ تشکیل دیا۔
80کے عشرے میں سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کی کشش اور مقبولیت کے باعث اس سلسلہ سے وابستگان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ ان میں پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم افرادکے علاوہ بیرون ملک مقیم افراد کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اب سالکین راہ طریقت کی تربیت و تعلیم کے لئے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ روحانی علوم اور تصوف کی تعلیم دینے والے اس ادارہ کانام قلندرشعور اکیڈمی رکھا گیا۔ تصوف اور روحانی علوم کا فروغ ،سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کاتعارف ،ان تعلیمات کی تفہیم اور تدریس ، اسلامیات ، علاج معالجہ اور دیگر موضوعات پر تصنیف و تالیف کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جوخواجہ شمس الدین عظیمی کے قلم سے نکل کر خواص و عوام کے استفادہ کے لئے عام ہے۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 40سے زائد ہے۔ ان میں کئی کتابوں کے انگریزی، عربی ، فارسی ، روسی ، تھائی اور سندھی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ شمس الدین عظیمی نے ساٹھ سے زائد کتابچے تحریر کئے ۔کئی اخبارات و رسائل میں کالم و مضامین تحریر کئے ہیں۔ ان کے علاوہ مختلف موضوعات پرکتابوں کے پیش لفظ تحریر کئے ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کوزیادہ سے زیادہ لوگوں اور زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پہنچانے کے لئے خواجہ شمس الدین عظیمی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کے پیغام کی تبلیغ ،ارکان سلسلہ کی تعلیم کے لئے شمس الدین عظیمی نے نہ صرف پاکستان کے کئی شہروں کے سفر کئے بلکہ پاکستان سے باہر بھی شمس الدین عظیمی تقریباً اٹھارہ ممالک کے تبلیغی و تعلیمی دورے کر چکے ہیں۔ پاکستان اور بیرون پاکستان کئی جامعات اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواجہ شمس الدین عظیمی کو لیکچر کے لئے مدعو کیا گیا۔پاکستان اوربیرون پاکستان مختلف ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے بھی عظیمی صاحب کے پروگرام نشر ہوئے۔ سلسلہ عظیمیہ کی جانب سے سلسلہ کے ارکان کے لئے بالخصوص اور روحانی علوم کے شائق لوگوں کے لئے بالعموم مختلف تربیتی اور تنظیمی پروگرام خواجہ شمس الدین عظیمی کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔

بحیثیت مصنف

خواجہ شمس الدین عظیمی کا نام پاکستان میں صوفیانہ افکار کے فروغ و اشاعت میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے تصوف روحانیت ، پیراسائیکالوجی اور دیگر موضوعات پر تین درجن سے زائد کتابیں اور اسی سے زائد کتابچے تحریر کئے ۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی بعض کتابوں کا انگریزی ، عربی ، فارسی ،روسی ،تھائی، سندھی اور پشتو زبانوں میں ترجمہ ہو چکاہے۔ خواجہ شمس الدین عظیمی تقریباً چار عشروں سے تصنیف و تالیف اور تحریر کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ شمس الدین عظیمی نے 1950ء کے عشرے میں کراچی سے ایک رسالہ ’’آفتاب نبوت‘‘ جاری کیاجو ڈیڑھ دو سال تک شائع ہوتارہا۔اس کے بعد تحریر و تصنیف کے شعبہ میں ایک طویل وقفہ رہا۔1969ء میں روزنامہ حریت کراچی میں ایک کالم بعنوان ’’روحانی علاج ‘‘لکھنا شروع کیا جو چند ہفتوں میں ہی بہت مقبول ہوگیا۔چند سال بعد شمس الدین عظیمی نے روزنامہ جنگ (پاکستان اور روزنامہ لندن ایڈیشن) روزنامہ ہفت روزہ اخبار جہاں میں کالم لکھنا شروع کئے ۔علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کے مڈویک میگزین میں شمس الدین عظیمی نے پیراسائیکالوجی کے زیر عنوان مضامین بھی لکھے۔ مذکورہ اخبارات کے علاوہ شمس الدین عظیمی کے کالم ومضامین کئی دوسرے اخبارات وجرائد میں شائع ہوئے ۔ 1978ء میں شمس الدین عظیمی نے ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی سے شائع کرنا شروع کیا جو اپنے آغاز سے تاحال باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ روحانی ڈائجسٹ میں شمس الدین عظیمی نے مسائل کے حل کے لئے ایک مستقل کالم روحانی ڈاک کے علاوہ نورالٰہی ،نور نبوت کے نام سے مختصر مضامین ،آواز دوست کے نام سے اداریئے تحریر کئے ۔ چند سال بعد صدائے جرس کے عنوان سے مضامین لکھنے شروع کئے۔ ان کے علاوہ مرکزی مراقبہ ہال میں ہر جمعہ کو ہونے والی محفل مراقبہ میں شمس الدین عظیمی کی تقاریر بھی بعد ازاں روحانی ڈائجسٹ میںشائع ہوتی رہیں۔شمس الدین عظیمی کا ایک کالم روحانی سوال وجواب کے زیر عنوان بھی ہرماہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوتاہے۔ سیکنڈری کلاسز (جماعت ششم اور ہفتم )کے لئے شمس الدین عظیمی نے اسلامیات کی درسی کتب بھی تحریر کی ہیں۔ 

Please Share it! :)
Share To:

Faizan-e-Shams

Post A Comment:

0 comments so far,add yours